-
Notifications
You must be signed in to change notification settings - Fork 0
/
test_file.txt
58 lines (31 loc) · 18.8 KB
/
test_file.txt
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
گزشتہ کئی سالوں سے مختلف بحران آتے جاتے رہے لیکن حالیہ آٹا ، چینی سمیت دیگر بحران اچانک پید ا ہوئے اور ان پر جے آئی ٹی تشکیل دے دیں گئیں تاکہ عوام کو ریلیف دیا جاسکے۔ دوسری جانب بجلی ، گیس ، پانی سمیت دیگر بلوں میں کئی سو گنا اضافہ کردیا گیا ،صوبائی و وفاقی وزراء نے اپنے اپنے ایوانوں بحران کے ذمہ دار عناصر کو بے نقاب کرنے کے بجائے سب اچھاہے کی رپورٹ پیش کیں ۔ساتھ ہی اورنگزیب کی طرح جواب دیا، حقائق کی ’’قبر ذرا گہری کھودنا!‘‘۔
تاریخی گواہ ہے بقول ماہرین ، مبصرین اور صحافیوں کا کہنا اور لکھنا ہے کہ پگڑی بدل بھائی کی رسم کی آڑ میں نادر شاہ نے محمد شاہ رنگیلا سے کوہِ نور ہیرا حاصل کیا تھا۔12 مئی 1739 کی شام۔ دہلی میں زبردست چہل پہل، شاہجہان آباد میں چراغاں اور لال قلعے میں جشن کا سماں ہے۔ غریبوں میں شربت، پان اور کھانا تقسیم کیا جا رہا ہے، فقیروں، گداؤں کو جھولی بھر بھر کر روپے عطا ہو رہے ہیں۔
آج دربار میں ایرانی بادشاہ نادر شاہ کے سامنے مغلیہ سلطنت کے 13ویں تاجدار محمد شاہ بیٹھے ہیں، لیکن اس وقت ان کے سر پر شاہی تاج نہیں ہے، کیوں نادر شاہ نے ڈھائی ماہ قبل ان سے سلطنت چھین لی تھی۔ 56 دن دہلی میں رہنے کے بعد اب نادر شاہ کے واپس ایران لوٹنے کا وقت آ گیا ہے اور وہ ہندوستان کی باگ ڈور دوبارہ سے محمد شاہ کے حوالے کرنا چاہتا ہے۔نادر شاہ نے صدیوں سے جمع کردہ مغل خزانے میں جھاڑو پھیر دی ہے اور شہر کے تمام امرا و روسا کی جیبیں الٹا لی ہیں، لیکن اسے دہلی کی ایک طوائف نور بائی نے، جس کا ذکر آگے چل کر آئے گا، خفیہ طور پر بتا دیا ہے کہ یہ سب کچھ جو تم نے حاصل کیا ہے، وہ ایسی چیز کے آگے ہیچ ہے جسے محمد شاہ نے اپنی پگڑی میں چھپا رکھا ہے۔
نادر شاہ گھاگ سیاستدان اور گھاٹ گھاٹ کا پانی پیے ہوئے تھا۔ اس موقعے پر وہ چال چلی جسے نہلے پہ دہلا کہا جاتا ہے۔ اس نے محمد شاہ سے کہا، ’’ایران میں رسم چلی آتی ہے کہ بھائی خوشی کے موقعے پر آپس میں پگڑیاں بدل دیتے ہیں، آج سے ہم بھائی بھائی بن گئے ہیں، تو کیوں نہ اسی رسم کا اعادہ کیا جائے؟‘‘
محمد شاہ کے پاس سر جھکانے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں تھا۔ نادر شاہ نے اپنی پگڑی اتار کر اس کے سر رکھی، اور اس کی پگڑی اپنے سر، اور یوں دنیا کا مشہور ترین ہیرا کوہِ نور ہندوستان سے نکل کر ایران پہنچ گیا۔رنگیلا بادشاہ)اس ہیرے کے مالک محمد شاہ اپنے پڑدادا اورنگزیب عالمگیر کے دورِ حکومت میں 1702 میں پیدا ہوئے تھے۔ ان کا پیدائشی نام تو روشن اختر تھا، تاہم 29 ستمبر 1719 کو بادشاہ گر سید برادران نے انھیں صرف 17 برس کی عمر میں سلطنت تیموریہ کے تخت پر بٹھانے کے بعد ابوالفتح نصیر الدین روشن اختر محمد شاہ کا خطاب دیا۔ خود ان کا تخلص ’’سدا رنگیلا‘‘ تھا۔ اتنا لمبا نام کون یاد رکھتا، چنانچہ عوام نے دونوں کو ملا کر محمد شاہ رنگیلا کر دیا اور وہ آج تک ہندوستان کے طول و عرض میں اسی نام سے جانے اور مانے جاتے ہیں۔اورنگزیب عالمگیر نے ہندوستان میں ایک خاص قسم کا کٹر اسلام نافذ کر رکھا تھا۔محمد شاہ کی پیدائش کے وقت اورنگزیب عالمگیر نے ہندوستان میں ایک خاص قسم کا کٹر اسلام نافذ کر رکھا تھا اس کا سب سے پہلا نشانہ وہ فنونِ لطیفہ بنے جن کے بارے میں تصور تھا کہ وہ اسلامی اصولوں سے مطابقت نہیں رکھتے۔
اس کی ایک دلچسپ مثال اطالوی سیاح نکولو منوچی نے لکھی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ اورنگزیبی دور میں جب موسیقی پر پابندی لگی تو گویوں اور موسیقاروں کی روٹی روزی بند ہو گئی۔ آخر تنگ آ کر ایک ہزار فنکاروں نے جمعے کے دن دہلی کی جامع مسجد سے ایک جلوس نکالا اور آلات موسیقی کو جنازوں کی شکل میں لے کر روتے پیٹتے گزرنے لگے۔ اورنگزیب نے دیکھا تو حیرت زدہ ہو کر پچھوایا، یہ کس کا جنازہ لیے جا رہے ہو جس کی خاطر اس قدر آہ و بکا کیا جا رہا ہے؟ ’’ انھوں نے کہا: ‘‘آپ نے موسیقی قتل کر دی ہے اسے دفنانے جا رہے ہیں۔
اورنگزیب نے جواب دیا، ’’قبر ذرا گہری کھودنا!‘‘طبیعیات کا اصول ہے کہ ہر عمل کا ردِ عمل ہوتا ہے۔ یہی اصول تاریخ اور انسانی معاشرت پر بھی لاگو ہوتا ہے کہ جس چیز کو جتنی سختی سے دبایا جائے، وہ اتنی ہی قوت سے ابھر کر سامنے آتی ہے۔ چنانچہ اورنگزیب کے بعد بھی یہی کچھ ہوا اور محمد شاہ کے دور میں وہ تمام فنون پوری آب و تاب سے سامنے آ گئے جو اس سے پہلے دب گئے تھے۔
حکمرانوں کے بلندو بانگ دعوؤں سے لوگ وقتی طورپر خوش توہو جاتے ہیں لیکن فقط دعوؤں کی بنیادپر کتنی دیر تک عوام کو بہلایا جا سکتاہے ہمارے ملک میں اکثریت مسلمانوں کی ہے اس کے باوجودجب بھی ماہ ِ صیام آتاہے خوانچہ فروش سے دکاندارتک ہر شخص چھریاں تیز کرلیتا ہے ہرچیز کا ڈبل،ٹرپل ریٹ۔ کبھی مہنگائی کا طوفان اور کبھی نا جائز منافع خوری کی سونامی۔ مقدس ماہ صیام ہو عیدین کی آمدآمد ہوشربا مہنگائی سے عوام کے ہاتھوں کے طوطے اڑ جاتے ہیں دکاندار اس اندازسے چیزیں مہنگی کرتے ہیں جیسے ان کے نزدیک یہ بھی کوئی مذہبی فریضہ ہو۔ ماہ ِ صیام سے پہلے پیاز25-20روپے کلو تھا اب تگنی قیمت پر فروخت ہورہاہے ابھی تک اس کے بھاؤ نہیں گرے۔ حدہوگئی لہسن اور ادرک350روپے کلو تک دھڑلے سے بیچا جارہاہے ادرک ،لہسن نہ ہوگئے کستوری ہوگئی دالوں کاحال بھی مت پوچھئے صرف آلو سستے ہیں باقی دوسری سبزیوں کا ریٹ اونچا اور عوام کا حال پتلاہے۔ سیب ،انار اوردیگرفروٹ کا ریٹ اس قدر بڑھ گیاہے غریب تو صرف حسرت سے دیکھتے گذر جاتے ہیں مباداکمزوردل شاید قیمتیں سن کر بے ہوش نہ ہو جائیں۔ آٹے کے بحران کے بعدلگتا ہے چینی کا بحران آئے گا اس آڑمیں نانبائیوں نے روٹی اور ناان کی قیمت بڑھا ڈالی لیکن ان گراں فروشوں کو کوئی پوچھنے والا بھی نہیں ہے لگتاہے حکومت اور پرائس کنٹرول کمیٹیوں کے کرتادھرتا امبی تان کر سو گئے ہیں اسی لئے گراں فروشوں نے عوام کا براحال کررکھاہے لوگ ایک دوسرے سے پو چھتے پھررہے ہیں حکومت کہاں ہے؟ انتظامیہ کہاں خواب خرگوش مزے سے سورہی ہے؟عوام نا جائزمنافع خوروں کے ہاتھوں لٹ رہے ہیں پھربھی ہمارے وزیرِ ِ اعلیٰ کا دعویٰ ہے نا جائز منافع خوروں سے آہنی ہاتھوں سے نمٹیں گے حالات تو ایسے ہیں وہ کیا نمٹیں گے عوام گراں فروشوں کے ہاتھوں نمٹے جارہے ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں وزیر ِ اعلیٰ عثمان بزدار نے مہنگائی کنٹرول کرنے کیلئے چھاپے مارنے کی ہدایت کردی ہے لیکن وہ کہاں کہاں جائیں گے؟ کس کس شہر چھاپے ماریں گے؟ کس کس کو پکڑیں گے۔ پاکستان میں تو آوے کا آوابگڑاہواہے۔ نا جائز منافع خوروں نے حکومت کی رٹ کو چیلنج کررکھاہے جس طرح شمالی وزیرستان میں دہشت گردوں اور سماج دشمن عناصر کے خلاف اپریشن ردالفسادشروع کیا گیا ہے ملک بھر میں مہنگائی کرنے والے نا جائز منافع خوروں کے خلاف ایک خوفناک اپریشن ضرب ِ غضب یا اپریشن ردالفساد شروع کرنے کی اشد ضرورت ہے ان لوگوں نے عوام سے خوشیاں چھین لی ہے عام آدمی اور معصوم معصوم بچے فروٹ کو ترستے پھررہے ہیں مگرمہنگائی کرنے والوں کو ذرا ترس نہیں آتادراصل یہ بڑے زمانہ ساز لوگ ہوتے ہیں ملک میں جس پارٹی کی حکومت بنتی ہے بڑے بڑے تاجر،صنعتکاراورسرمایہ دار اس پارٹی میں شامل ہوکر حکومت کا حصہ بن جاتے ہیں اب کون مائی کا لال ان کے خلاف کارروائی کرے حکومت کچھ کرتی بھی ہے تو وہ گونگلوؤں سے مٹی جھاڑنے کے مترادف ہوتاہے بیشتر اوقات ڈسٹری بیوٹر صاف بچ نکلتاہے اور قانون کی زدمیں چھوٹا دکاندار آجاتاہے سزا اور جرمانے بھی اسی کو ہوتے ہیں سامنے کی بات ہے اسے چیز جس حساب سے ملے گی فروخت بھی اسی مارجن سے کی جائے گی۔ نا جائز منافع خوری صرف اس صورت ختم کی جا سکتی ہے جب بے رحم اپریشن کی زدمیں جو بھی آئے اسے معاف نہ کیا جائے دوسراپرائس کنٹرول کمیٹیوں کو فعال بنایا جائے اس میں اچھی شہرت کی حامل نیک نام شخصیات کو نہ صرف نمائیدگی دی جائے بلکہ انہیں اختیارات بھی دئیے جائیں معیار اور مقدارپرسختی سے عمل کیا جائے تو کوئی وجہ نہیں عوام کی داد رسی نہ ہو،صارف عدالتوں کا دائرہ کار وسیع کیا جائے بلندو بانگ دعوے کرنااچھی بات سہی اس سے لوگ وقتی طورپر خوش توہو جاتے ہیں لیکن فقط دعوؤں کی بنیادپر کتنی دیر تک عوام کو بہلایا جا سکتاہے ہر قسم کی سیاست سے بالاترہو کر فیصلے کرنے سے ہی عوام کو ریلیف مل سکتاہے عوام دعوے نہیں عملی اقدامات چاہتے ہیں اور عملی اقدامات کیلئے دعوے کرنے کی ضرورت نہیں ہوتی۔
پاکستان کے وزیر اعظم عمران خان میں کورونا وائرس کی تشخیص ہوئی ہے۔ وزیر اعظم کے معاون خصوصی برائے صحت ڈاکٹر فیصل سلطان نے ٹوئٹر پر تصدیق کی ہے کہ وزیر اعظم کا کورونا ٹیسٹ مثبت آیا ہے۔
وزیر اعظم عمران خان نے دو روز قبل کورونا وائرس سے بچاؤ کی ویکسین کا بھی لگوائی تھی۔
ہر فرد کو کچھ ہفتوں کے فاصلے سے ویکسین کی دو خوراکیں دی جاتی ہیں اور عمران خان کو ابھی تک صرف ایک خوراک دی گئی تھی۔
اپنا کووڈ ٹیسٹ مثبت آنے کے بعد پاکستان کے وزیر اعظم نے خود کو گھر میں قرنطینہ کر لیا ہے۔
پاکستان سمیت اس وقت دنیا بھر میں ویکسین لگانے کی مہم جاری ہے لیکن اس دوران چند ایسے عناصر بھی موجود ہیں جو ویکسین کی افادیت پر شکوک و شبہات کا اظہار کرتے ہوئے یہ نہیں لگوانا چاہ رہے۔
ایسے میں عمران خان کا حال ہی میں کووڈ ویکسین لگوانے کے بعد اس مرض میں مبتلا ہوجانا لوگوں کے شکوک و شبہات میں مزید اضافہ کر رہا ہے۔
اس خبر کے بعد پاکستان میں سوشل میڈیا پر لوگ اکثر یہ سوال کرتے نظر آ رہے ہیں کہ کیا ویکسین لگوانے کے بعد بھی کورونا وائرس کا خطرہ موجود رہتا ہے اور یہ کہ ویکسین کتنے عرصے بعد مؤثر ثابت ہوتی ہے۔
بی بی سی اردو نے طبی ماہرین سے انھی سوالوں کے جواب جاننے کی کوشش کی ہے۔
حکومتِ پاکستان کے ٹوئٹر اکاؤنٹ سے جاری ہونے والے ایک بیان میں وضاحت دی گئی کہ وزیر اعظم عمران خان کا کورونا ٹیسٹ جب مثبت آیا تو اس وقت ان کی ویکسینیشن مکمل نہیں ہوئی تھی۔ اُنھیں ویکسین کا پہلا ٹیکا لگے صرف 2 دن ہوئے ہیں، جو کسی بھی ویکسین کے کارآمد ہونے کے لیے بہت کم وقت ہے۔ اینٹی باڈیز ویکسین کا دوسرا ٹیکا لگنے کے دو سے تین ہفتوں کے بعد بننا شروع ہوتی ہیں۔
پاکستان میں اس وقت چین کی طرف سے عطیے میں ملنے والی سائنو فارم ویکسین 60 سال یا اس سے زائد عمر کے افراد کو لگائی جا رہی ہے۔ ایک خوراک کے بعد 21 دن بعد دوبارہ بھی یہ ویکسین لگوانی ہوتی ہے۔
وزیر اعظم عمران خان کے سابق معاونِ خصوصی برائے صحت ڈاکٹر ظفر مرزا نے بی بی سی کو بتایا کہ وزیر اعظم عمران خان نے دو روز قبل ویکسین لگوائی ہے اور اس بات کا قوی امکان ہے کہ وہ اس وقت کورونا وائرس سے متاثر ہو چکے تھے۔
ڈاکٹر ظفر مرزا کے مطابق ویکسین قوتِ مدافعت پیدا کرنے میں وقت لیتی ہے تو اس عرصے میں بھی کوئی وائرس سے متاثر ہو سکتا ہے۔
پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف میڈیکل سائنسز کی ماہرِ وبائی امراض ڈاکٹر نسیم اختر نے بی بی سی کو بتایا کہ ویکسین لگانے کے کم از کم دو ہفتے بعد انسانی جسم میں اینٹی باڈیز پیدا ہونا شروع ہو جاتی ہیں۔ وہ اس خیال سے متفق نظر آتی ہیں کہ اس بات کے امکانات موجود ہیں کہ وزیرِ اعظم ویکسین لگوانے سے پہلے ہی کورونا وائرس سے متاثر ہو چکے تھے۔
ڈاکٹر نسیم اختر کہتی ہیں کہ ویکسین کے بعد بھی انفیکشن تو ہو سکتا ہے۔ ان کے مطابق یہ الگ بات ہے کہ ویکسین کے بعد انفیکشن معمولی نوعیت کا ہوتا ہے مگر احتیاط سے معمولی نوعیت کے خطرے سے بھی بچاؤ ممکن ہے۔
ڈاکٹر نسیم اختر کہتی ہیں کہ اب وزیر اعظم عمران کو دوبارہ ویکسین ان کی صحت یابی کے بعد ہی لگائی جا سکے گی۔
انڈس ہسپتال کے چیف ایگزیکٹیو افسر عبدالباری خان نے پاکستان کے مقامی ٹی وی چینل جیو نیوز سے بات کرتے ہوئے کووڈ ویکسین کی افادیت پر اٹھنے والے سوالات کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ ’ویکسین لگنے سے پہلے کسی کو کووڈ ہونا نارمل بات ہے۔
انھوں نے کہا کہ ’ویکسین لگنے کے دو سے تین ہفتے بعد جسم میں اینٹی باڈیز بنتی ہیں۔ ہوسکتا ہے کہ وزیرِ اعظم کسی ایسے شخص سے ملے ہوں جسے کورونا وائرس ہو۔ وہ صحت مند آدمی ہیں، جلد صحتیاب ہوجائیں گے۔‘
انھوں نے مزید وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ چونکہ اینٹی باڈیز کا اثر دو سے تین ہفتے بعد ہوتا ہے اس لیے چینی ویکسین سائنوفارم ڈبل ڈوز ویکسین ہے اور اس ویکسین کی افادیت 80 سے 90 فیصد ہے۔
بعد ازاں ڈاکٹر عبدالباری نے بی بی سی کو بتایا کہ ویکسین لگوانے کے باوجود بھی احتیاط لازمی ہوتی ہے اور ویکسین کا فائدہ یہ ہوتا ہے کہ بیماری زیادہ خطرناک ثابت نہیں ہوتی۔
وزیر اعظم عمران خان کی حالیہ دنوں میں کیا مصروفیات رہیں؟
ابھی یہ واضح نہیں ہے کہ وزیر اعظم عمران خان اس وائرس سے کیسے متاثر ہوئے ہیں تاہم وزیر اعظم حالیہ چند دنوں میں عوامی اجتماعات اور اجلاسوں میں بھی شریک ہوتے رہے ہیں۔ اس دوران وزیر اعظم بیرونِ ملک سے آئے مہمانوں سے بھی ملاقات کرتے رہے اور اُنھوں نے چند دن قبل خیبر پختونخوا میں ترقیاتی منصوبوں کا دورہ بھی کیا تھا۔
واضح رہے کہ 18 مارچ کو عمران خان نے پہلے اسلام آباد میں ہاؤسنگ پراجیکٹ کا افتتاح کیا جس میں دیگر وفاقی وزرا شامل تھے۔
اس کے بعد انھوں نے معاشی استحکام پر ہونے والے اجلاس میں شرکت کی اور اسی روز انھوں نے ویکسین بھی لگوائی۔